Bikhray Moti


جب حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کی وفات ہوئی کہرام مچ گیا۔ جنازہ تیار ہوا۔ ایک بڑے میدان میں جنازہ پڑھنے کیلئے لایا گیا۔ ایک خلقت جنازہ پڑھنے کیلئے نکل پڑی۔ انسانوں کا ایک سمندر تھا جو جہاں تک نگاہ جاتی تھی وہاں تک نظر آتا تھا.... یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایک بپھرے ہوئے دریا کی طرح یہ مجمع ہے۔ جب جنازہ پڑھانے کا وقت آیا ایک آدمی بڑھا۔ کہتا ہے کہ....! میں وصی ہوں یعنی مجھے حضرت رحمة اللہ علیہ نے وصیت کی تھی۔ میں اس مجمع تک وہ وصیت پہنچانا چاہتا ہوں۔ مجمع خاموش ہو گیا‘ وصیت کیا تھی خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ نے یہ وصیت (مرنے سے پہلے کی خاص نصیحت اور خواہش) کی کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جس کے اندر چار خوبیاں ہوں۔ پہلی خوبی یہ کہ زندگی میں اس کی تکبیر اولیٰ کبھی قضا نہ ہوئی ہو یعنی نماز شروع کرتے وقت جب امام صاحب تکبیر اول کہیں تو وہ شخص اسی وقت نماز میں شامل ہو۔ دوسری شرط اس کی تہجد کی نماز کبھی قضا نہ ہوئی ہو۔ تیسری بات یہ کہ اس نے غیر محرم پر کبھی بھی بری نظر نہ ڈالی ہو۔ چوتھی بات یہ کہ اتنا عبادت گزار ہو کہ اس نے عصر کی فرض نماز سے پہلے کی سنتیں بھی کبھی نہ چھوڑی ہوں۔ جس شخص میں یہ چار خوبیاں ہوں وہ میرا جنازہ پڑھائے۔ جب یہ بات کی گئی تو مجمعے کو سانپ سونگھ گیا۔ سناٹا چھا گیا‘ لوگوں کے سر جھک گئے کون ہے جو قدم آگے بڑھائے کافی دیر گزر گئی حتیٰ کہ ایک شخص روتا ہوا آگے بڑھا۔ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کے جنازے کے قریب آیا جنازے سے چادر ہٹائی اور کہا قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ آپ خود تو فوت ہو گئے مگر مجھے رسوا کر دیا۔ اس کے بعد بھرے مجمع کے سامنے اللہ کو حاضر ناظر جان کر قسم اٹھائی کہ میرے اندر یہ چاروں خوبیاں اللہ کے حکم اور فضل سے موجود ہیں۔ لوگوں نے دیکھا یہ وقت کا بادشاہ شمس الدین التمش تھا۔ 

اگر بادشاہی کرنے والے دینی زندگی گزار سکتے ہیں تو کیا ہم دکان کرنے والے یا دفتر میں جانے والے ایسی زندگی 
نہیں گزار سکتے؟ اللہ رب العزت ہمیں نیکی کی توفیق عطا فرمائے۔





اٹلی میں ایک بار ہمارے ہوٹل میں آگ لگ گئی اور ایک بچہ تیسری منزل پر رہ گیا
شعلے بڑے خوفناک قسم کے تھے - اس بچے کا باپ نیچے زمین پر کھڑا بڑا بیقرار اور پریشان تھا - اس لڑکے کو کھڑکی میں دیکھ کر اس کے باپ نے کہا چھلانگ مار بیٹا
-"اس لڑکے نے کہا کہ " بابا کیسے چھلانگ ماروں مجھے تو تم نظر ہی نہیں آ رہے
(اب وہاں روشنی اس کی آنکھوں کو چندھیا رہی تھی )
اس کے باپ نے کہا کہ تو چاہے جہاں بھی چھلانگ مار ، تیرا باپ تیرے نیچے ہے ، تو مجھے نہیں دیکھ رہا میں تو تمہیں دیکھ رہا ہوں ناں
-"اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ " تم مجھے نہیں دیکھ رہے - میں تو تمہیں دیکھ رہا ہوں نا
اعتماد کی دنیا میں اترنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی شہ رگ کی بیٹھک اور شہ رگ کی ڈرائنگ روم کا کسی نہ کسی طرح آہستگی سے دروازہ کھولیں - اس کی چٹخنی اتاریں اور اس شہ رگ کی بیٹھک میں داخل ہو جائیں جہاں اللہ پہلے سے موجود ہے
اللہ آپ کو خوش رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے آمین
اشفاق احمد زاویہ 3 شہ رگ کا ڈرائنگ روم۔


ﺍﯾﮏ ﺷﺎﺩﯼ ﺷﺪﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﻋﻮﺭﺕ ﺗﻮ ﭘﺎﺅﮞ ﮐﯽ ﺟﻮﺗﯽ ﮨﻮﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ، ﻣﺮﺩ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﺳﺎﺋﺰ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ ﺑﺪﻝ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﮮ۔ ﺳﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﺍﻧﺎ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ: ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﮐﮩﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺭﺍﺋﮯ ﮨﮯ؟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ: ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺻﺤﯿﺢ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ۔ ﻋﻮﺭﺕ ﺟﻮﺗﯽ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﮨﮯ ﮨﺮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﭘﺎﺅﮞ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔
ﺟﺒﮑﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﯾﮏ ﺗﺎﺝ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﻮ۔
ﮐﺴﯽ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﮩﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﻧﺎ ﺩﻭ، ﺑﺲ ﺍﺗﻨﺎ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﻮ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺴﺎ 
ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔



حضرت مولانا مظفر حسین کاندھلوی رحمہ اللہ تعالی نے دیکھا کہ ایک پہلوان مسجد میں آیا جو غسل کرنا چاھتا تھا، موذن نے اس کو ڈانٹا اور کہا
" نہ نماز کے، نہ روزے کے، مسجد میں نھانے کےلۓ آجاتے ھیں
مولانا کاندھلوی رحمہ اللہ تعالی نے مؤذن کو روکا اور خود اس کے نہانے کے لۓ پانی بھرنے لگے اور اس سے فرمایا
"ماشاءاللہ تم تو بڑے پہلوان معلوم ہوتے ھو_ ویسے تو بھت زور کرتے ھو، ذرا نفس کے معاملہ میں بھی تو زور کیا کرو، نفس کو دبایا کرو اور ھمت کرکے نماز پڑھا کرو، اصل پہلوانی تو یہی ھے
اتنا سننا تھا کہ وہ شخص شرم سے پانی پانی ھوگیا اور اس نرم گفتگو کا اس پر اتنا اثر ھوا کہ وہ اسی وقت سے نماز کا پابند ھوگیا
(حکایات اسلاف عن روایات الاخلاف)
کسی کو سمجھانے اور اصلاح کرنے کا طریقہ بھی یھی ھے کہ انتھائ نرمی برتی جاۓ اور دوسری بات یہ کہ سب کے سامنے نہ ٹوکا جاۓ بلکہ مناسب وقت اور مناسب جگہ کا تعین کیا جاۓ کیونکہ بعض افراد پر نرمی کا اثر زیادہ ھوتا ھے اورسختی سے وہ دین بیزار اور بجاۓ راہ راست پہ آنے کے اور بگڑ جاتے ھیں، اس لیے لوگوں کے مزاج کو پیش نظر رکھ کر بات کرنی چاھیے
ان شاءاللہ بھترین نتائج حاصل ھونگے

No comments:

Post a Comment